سینکڑوں نشانات اور سینکڑوں آزاد امیدوار


 پی ٹی آئی کی مثال اس مردار جانور کی سی ہوچکی ہے جس کی لاش پر جنگلی جانور پل پڑیں اور جس کو جو بوٹی ہاتھ لگے لے کر نکل بھاگے۔ عمران خان کی سیاسی حماقتوں کی بدولت پہلے اقتدار گیا، پھر چیئرمین شپ گئی، پھر پارٹی نشان گیا اور اب شائد پارٹی کا بھی صفایا ہونے کو ہے۔

حالیہ الیکشنز کے لیے پی ٹی آئی نے سینکڑوں آزاد امیدواروں کو ٹکٹس دئیے ہیں جن کی اکثریت وہ ہیں جنہوں نے کروڑوں روپے خرچ کیے ہیں۔ پھر ایک ایک حلقے سے کئی کئی امیدوار مختلف نشانوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہر ایک امیدوار کا ذاتی ووٹ بینک بھی ہے۔ پی ٹی آئی ووٹرز کو ووٹنگ کے روز ناصرف اپنے پسندیدہ امیدواروں کے نام یاد رکھنے ہوں گے بلکہ ان کے انتخابی نشان کو بھی ذہن نشین کرنا ہو گا۔

اس تمام کنفیوژن کے بعد بھی پی ٹی آئی کے جو آزاد امیدوار جیت جاتے ہیں تو آزاد ہونے کی بنا پر ان کو کسی بھی دوسری جماعت میں شمولیت پر کوئی آئینی اور قانونی رکاؤٹ نہیں ہوگی۔ جنہوں نے کروڑوں روپے لگائے ہیں وہ جہاں سے زیادہ بڑی بولی لگے گی وہاں چلے جائیںگے۔

دوسرے وہ امیدوار ہیں جن کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے لوگ ہیں۔ الیکشن جیتنے کے بعد ان کو اسٹیبلشمنٹ نے جہاں اشارہ کیا وہاں جائنگے۔ ان میں عمر ایوب جیسے لوگ بھی شامل ہیں جن کو آجکل پی ٹی آئی کے کرتا دھرتا کہا جاتا ہے۔

تیسرے علی امین گنڈا پور اور مشتاق غنی جیسے لوگ ہیں۔ یہ صرف پی ٹی آئی کے ووٹ بینک کیش کرنا چاہتے ہیں۔ مشتاق غنی نے تو لندن بیٹھے بیٹھے پاسپورٹ بنوایا اور حفاظتی ضمانت بھی کروالی تاکہ صرف انتخاب لڑنے آسکے۔ علی امین گنڈا پور نے بڑے بڑوں کا پتہ صاف کروایا تھا تاکہ اس بار وہ خود وزیراعلی کے پی بن سکے۔ اگر اس کو پی ٹی آئی ڈوبتی نظر آئی تو وہ جو کرے گا وہ عمران خان سمیت پوری پی ٹی آئی کے لیے سرپرائز ہوگا۔

عمران خان نے بڑی تعداد میں وکلاء کو بھی ٹکٹ دئیے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کو کوئی کرائے پر گھر نہیں دیتا۔ عمران خان کے کیسز خراب ہونے کی ایک وجہ یہ ٹکٹس بھی ہیں۔ وکلاء جانتے ہیں کہ جب تک عمران خان جیل میں ہے تبھی تک انکی چاندی ہے۔ انہی وکلاء کے کرائے گئے انٹرا پارٹی الیکشنز کی بدولت پی ٹی آئی اپنے انتخابی نشان سے محروم ہوئی۔

یہ سب کچھ دیکھ کر یوں لگ رہا ہے کہ پی ٹی آئی کسی مردار لاش کی طرح پڑی ہے جس کی بوٹیاں یہ سب نوچ رہے ہیں اور شائد کچھ دن بعد اسکی ہڈیاں بھی نہ بچیں۔

تحریر شاہد خان

Post a Comment

Previous Post Next Post